حوزہ نیوز ایجنسی | ناصر الملّت، نجم الدّین، ابوالفضل، شمس العلماء، صدر المحققین آیت اللہ سید ناصر حسین موسوی کنتوری کے وجودِ ذی جودنے سن 1284ہجری میں سرزمین لکھنؤ کو زینت بخشی، موصوف کے والد محترم بھی اپنے زمانہ کے معروف عالم دین تھے جن کو صاحب عبقات علامہ میر حامد حسین کنتوری کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔
علامہ کی ابتدائی تعلیم پانچ سال کے سن میں شروع ہوئی، ایک سال کے مختصر عرصہ میں اردو زبان پر مکمل طریقہ سے تسلّط حاصل کرلیا۔ عربی اور فارسی کے لئے مولوی لطف حسین کی خدمت میں رہے چونکہ بہت ذہین تھے اس لئے عربی اور فارسی بھی بہت کم عرصہ میں سیکھ لی اس کے بعد اپنے والد محترم کی خدمت میں رہ کر کسب فیض کیا۔ جب وہ دوسری کلاس میں آئے تو آپ کے والد انہیں مفتی محمد عباس شوشتری کے پاس لے گئے چونکہ مفتی صاحب فقہ، حدیث، اصول، تفسیر، تاریخ اور کلام جیسے متعدد علوم کے علاوہ فن شعر و ادب میں بھی ماہر تھے۔ ناصرالملت نے مفتی محمد عباس کی خدمت میں رہ کر اجتہاد کے زینے طے کرلئے۔
علامہ ابھی نوجوان ہی تھے کہ لکھنؤ کے فضلاء کی فہرست میں شمار کئے جانے لگے۔ جب آپ کے ہمدرس "مرزا محمد مہدی" نے نجوم السماء کا تکملہ تیار کیا تو نظر ثانی کے لئے آپ کے حوالہ کیا، علامہ نے شروع سے آخر تک اس کا مطالعہ کیا اور غلطیوں کی نشان دہی فرمائی۔
سولہ سال کی عمر میں مجتہد ہوجانا کوئی معمولی بات نہیں ہے، لیکن علامہ نے سولہ سال کی عمر میں درجہ اجتہاد پر فائز ہوکر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا۔ کوئی مسئلہ ایسا نہیں تھا جو معتبر حوالہ کے ہمراہ بیان نہ کریں حتی صفحہ اور سطر تک بھی یاد کئے ہوئے تھے۔
علامہ نے سن 1300 ہجری میں پہلا رسالہ تحریر کیا جو "وجوب سورہ در رکعت اوّل و دوّم" تھا یعنی نماز کی پہلی اور دوسری رکعت میں سورہ الحمد کے بعد دوسرا سورہ پڑھنے کے متعلق بحث کی ہے۔ اسی رسالہ کی بنیاد پر مفتی محمد عباس شوشتری اور علامہ میر حامد حسین نے آپ کو اجتہاد کے اجازہ سے نوازا۔ اس کے علاوہ آپ کے پاس "والد علام، مفتی محمد عباس، علامہ مرزا حسین نوری اور علامہ سید مرتضی کشمیری" جیسے جید علمائے کرام کی جانب سے نقل حدیث کے اجازے بھی موجود تھے۔ موصوف نے علامہ شیخ آقا بزرگ تہرانی، علامہ سید محمد صادق بحرالعلوم اور آیت اللہ شہاب الدین مرعشی نجفی کو اجازہ روایت سے نوازا۔
ناصرالمت اپنے استاد "مفتی محمد عباس" کی توجہ کا مرکز رہے، بچپن سے لیکر جوانی تک مفتی عباس کی نظر کرم کے زیر سایہ پرورش پائی۔ چونکہ ناصرالملت اپنے والد محترم کی خدمت میں رہ کر کسب فیض کرتے تھے لہٰذا آپ کو اپنے والد کے نظریات معلوم تھے اسی کے پیش نظر آپ نے استفتائات کے شعبہ کو اپنی زیر نگرانی لے لیا۔ علامہ میر حامد حسین نے عبقات الانوار کے کام کو بھی انہی کے سپرد کردیا۔ علامہ نے دو سو صفحات تحریر کرکے اپنی صلاحیت کا ثبوت دیا چنانچہ والد محترم کی جانب سے "صدرالمحققین" کا خطاب پایا۔
موصوف نے اپنے والد کی زندگی میں ہی وعظ و نصیحت کا سلسلہ شروع کیا اور منبر پر جانا شروع کردیا تھا۔ آپ کے خطبے اس درجہ عالمانہ ہوتے تھے کہ علماء، ادباء اور عوام الناس نہایت ذوق و شوق کے ساتھ آپ کے جلسوں میں شرکت کرتے تھے۔وعظ و نصیحت کے میدان میں ہمیشہ اسباب خلقتِ جن و انس بیان کرتے ہوئے "وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ" والی آیت کی تلاوت کرتے تھے۔
علامہ ناصر حسین چونکہ ایک باصلاحیت عالم دین تھے لہٰذا اپنے والد محترم کی وفاتِ حسرت آیات کے بعد ان کے جانشین قرار پائے اور لوگوں میں مرجع وقت کے عنوان سے پہچانے گئے۔ آپ کی فصاحت و بلاغت اور سلیس زبان لوگوں کو اپنی طرف کھینچتی تھی۔ آپ کے صبر،خلوص اور اخلاق نے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنالیا تھا یہی وجہ ہے کہ برّصغیر کی ایک بڑی تعداد آپ کی تقلید میں نظر آئی۔
خدمت دین کے پیش نظر متعدد میدانوں میں سرگرمِ عمل رہے، شیعہ اتحاد کی خاطر کانفرنس، شیعہ یتیموں کے لئے یتیم خانہ کی بنیاد، دارالتصنیف کی بنیاد، شہید ثالثؒ کے مزار کی تعمیر میں بنیادی کردار، لکھنؤ کی عزاداری کی حفاظت میں کوشاں، ادبیات میں ترقی دلانے کے لئے "بہجۃ الادب" اور "نادی الادباء" جیسی انجمنوں کا وجود علامہ ناصر کا مرہونِ منّت ہے۔
علامہ ناصر قوم تشیع کے مرجع تقلید ہونے کے باجود نہایت متواضع، خاضع و خاشع، متقی اور پرہیزگار انسان تھے؛ موصوف سے کسی کو کوئی شکایت نہیں ہوتی تھی؛ سب کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے؛ فقیروں اور بیکسوں کی ہم نشینی پسند فرماتے تھے؛ صاحبان ثروت سے دور رہتے تھے۔
علامہ موصوف نے ہندوستان میں رائج تمام علوم کو بقدرِ استطاعت حاصل کیا یہاں تک کہ سولہ سال کی عمر سے تدریس کا سلسلہ شروع کردیا تھا؛آپ نے تدریس کی شروعات کی تو تقریباً 15 درس دیتے تھے؛ موصوف کے دروس میں بلا تفریق مذہب و ملت شیعہ سنی سب شریک ہوتے تھے؛ زمانہ کے ساتھ ساتھ تدریس کا سلسلہ کم ہوتا گیا، علامہ زیادہ تر فقہ، حدیث اور ادبیات کی تدریس فرماتے تھے؛ آپ نے بے شمار شاگردوں کی تربیت فرمائی جو ہندوستان کی نامورشخصیتوں میں شمار ہوئے جن میں سے مولانا ابوالکلام آزاؔد، علامہ محمد ہارون زنگی پوری، علامہ شیخ فدا حسین اور علامہ محمد داؤد زنگی پوری وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
علامہ نے علمی میراث کے طور پر اپنے دست مبارک کی بہت زیادہ سوغات چھوڑی ہے، تقریباً 25 کتابوں کا ذکر ملتا ہے جن میں سے اثباتُ ردِّ الشَّمس لِاَمیر المؤمنین، حاشیہ اصول کافی، حاشیہ من لا یحضرہ الفقیہ اور مفتاح الہدایہ کے نام لئے جاسکتے ہیں۔ موصوف نے عبقات الانوار کی تصنیف میں اپنے والد محترم کی مدد کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔
خداوند منّان نے علامہ کو دو نعمتوں سے نوازا، آپ نے خدا کی عطا پر شکر کرتے ہوئے دونوں بیٹوں کو زیور علم و عمل سے آراستہ کیا، موصوف کے دو بیٹے نصیرالملت علامہ نصیر حسین اور سعید الملت علامہ سعید حسین کے ناموں سے معروف ہوئے جنہوں نے دین اسلام کی خدمت میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے اپنے خاندان کا نام روشن کیا۔
آخرکار یہ بلبل ہزار داستان ، قوم تشیع کا سرمایہ، آفتاب علم و فقاہت ماہ رجب کی ابتدا میں بروز پنج شنبہ سن 1361ہجری شہر لکھنؤمیں غروب ہوگیا۔ موصوف نے وصیت کی تھی کہ ان کی رحلت کا اعلان نہ کیا جائے، تشییع جنازہ میں دیر نہ کی جائے، ایسی جگہ غسل دیا جائے جہاں غرباء و فقراء کو غسل دیا جاتا ہے لہٰذا آپ کی وصیت پر عمل کیا گیا، غسل و کفن کے بعد جنازہ لکھنؤ سے آگرہ کے لئے روانہ ہوا، جگہ جگہ پر چاہنے والوں کا ہجوم تھا، ہندوستان بھر کے گوش و کنار سے لوگ جوق در جوق پروانہ وار دوڑے چلے آ رہے تھے؛ جنازہ آگرہ پہنچا ، ہزاروں مومنین کی موجودگی میں نماز جنازہ ادا ہوئی اور شہید ثالث علیہ الرحمہ کے مزار میں سپرد خاک کردیا گیا۔
ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج3، ص289، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2019ء۔